ڈرنے کی کوئی بات نہیں!:میری بیٹی کی عمر دس سال ہے۔ ہم لوگ سفر زیادہ کرتے ہیں۔ جب بھی ہماری گاڑی دریا، نہر یا کسی بھی جگہ پر بنے ہوئے پل سے گزرتی ہے، بیٹی ڈر کر کانپنے لگتی ہے اور مجھ سے لپٹ جاتی ہے۔ میں نے کہا کہ مت ڈرو، ڈرنے کی کوئی بات نہیں تو وہ میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جب تک پل نہیں گزرتا وہ سانس روکے رہتی ہے۔(شائستہ‘ لاہور)
مشورہ:عام طور پر بچوں میں ماں یا باپ کے خوف منتقل ہوتے ہیں یا خوف بیرونی ماحول کے زیر اثر پیدا ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ کسی ناگوار واقعہ کا نتیجہ یا خود ساختہ بھی ہوتا ہے۔ اسے فوبیا کہتے ہیں۔ ڈرتے ہوئے بچے سے یہ نہ کہیں کہ ڈرنے کی بات نہیں کیونکہ بچے کے لئے ڈرنے کی بات ہے۔ جب وہ پرسکون ہو جائے تو معلوم کریں کہ اس کو خوف کے دوران کیا محسوس ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے ذہن میں آنے والے خیالات بیان کرسکے۔ اسے احساس ہو کہ کوئی اس کا ہمدرد ہے جو اس کی بات کو سننا اور سمجھنا چاہتا ہے۔ آپ دیکھیں گی بیٹی اپنی بات کہہ کر ہی خود کو بہتر محسوس کرے گی۔ دوستانہ ماحول اور نرم لہجے میں مسکرا کر اس کی معلومات میں اضافہ کریں۔ مثلاً پانی پر پل کیوں بنائے جاتے ہیں، ان کے کیا فوائد ہیں وغیرہ۔ بچوں کے خوف کے حوالے سے بچوں کے ماہر نفسیات سے ملاقات بھی کارآمد ہوتی ہے۔
2 سال بعد وہ مجھے چھوڑ گیا:میں نے 15 سال کی عمر میں گھر چھوڑ دیا۔ اپنی ایک دوست کے گھر رہنے لگی۔ اس نے ایک لڑکے سے ملوایا۔ وہ مجھے اچھا لگا۔ ہم دونوں ساتھ رہے۔ دو سال بعد وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کو ایک اور لڑکی مل گئی جو اس کی مالی مدد بھی کرتی ہے، ویسے اپنے اخراجات میں خود برداشت کرتی ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اس لڑکے کو ایسا نقصان پہنچائوں کہ پھر وہ کسی لڑکی کو چھوڑ کر نہ جائے یا کسی کے ساتھ نہ رہنے پائے۔ میں نے حالات سے گھبرا کر اپنی پڑھائی چھوڑ دی ہے۔ ماں، باپ کو میرے بارے میں کچھ علم نہیں ہوگا۔ میں ان کی بات کبھی نہیں مانتی تھی۔ وہ خود بھی ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ میرا باپ سوتیلا تھا۔ اس سے بھی میں پریشان تھی۔ ہر وقت بڑ بڑاتی ہوں۔(ج۔بلجیم)
مشورہ: جس معاشرے میں لڑکے اور لڑکی کا شادی کے بغیر ساتھ رہنا آسان ہو وہاں ایک دوسرے کو چھوڑ کر جانا بھی آسان ہوتا ہے جس طرح لڑکا آپ کو بھول گیا اسی طرح آپ بھی اسے بھلا کر ذہنی سکون پا سکتی ہیں۔ تخریبی سوچوںسے بھی نجات پانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی وجہ سے آپ کے اپنے دماغ پر دبائو اور مایوسی بڑھ رہی ہے۔ اسلامی کتب کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں‘ کسی اللہ والے سے تعلق قائم کریں۔نماز کی پابندی کریں‘ سابقہ گناہوں پر سچے دل سے توبہ کریں آپ کے دل کو سکون ملے گا۔دوسروں کو نقصان پہنچا کر انسان کو خود کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یکسو ہوکر پڑھائی دوبارہ شروع کرنے سے ذہن مصروف ہوگا اور معاشرے میں بھی معتبر مقام بناسکیں گی۔
شوہر کی عجیب باتیں:شہر کے حالات خراب تھے۔ ہم لوگوں کو شادی میں جانا پڑا۔ ابھی ہم لوگ جاکر بیٹھے ہی تھے کہ راستے بند ہونے شروع ہوگئے۔ میں لوگوں سے ملاقات کررہی تھی۔ میرے شوہر آئے اور بچے کا ہاتھ پکڑا، شادی ہال سے باہر چلے گئے۔ گھر جاکر مجھے فون کیا کہ حالات بہت خراب ہیں، چاہو تو گھر آئو، چاہو تو وہیں رک جائو۔ اس طرح کی عجیب باتیں وہ پہلے بھی کئی بار کرچکے ہیں۔ مجھے ان کے رویے سے بے حد تکلیف پہنچتی ہے۔ اب ہر روز ہی مجھے خیال آتا ہے کہ انہیں چھوڑ دوں۔ مسئلہ بچے کا ہے؟(ا۔ راولپنڈی)
مشورہ:آپ کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بچہ کس کے ساتھ رہے گا بلکہ آپ خود کس طرح خوشحال اور پرسکون زندگی گزاریں گی۔ جن رشتوں کو خوشی پہنچانی چاہئے ان کو تکلیف پہنچانے والے لوگوں کو ذہنی طور پر نارمل نہیں کہا جاسکتا۔ خراب حالات میں انہیں آپ کا خیال رکھنا چاہئے تھا۔ وہ ساری باتیں نکات کی صورت میں تحریر کرلیں جو آپ کو عجیب لگی ہیں، پھر ان کے ساتھ اچھے ماہر نفسیات سے ملاقات کریں۔ ماہرانہ رائے اور مشاورت ازدواجی تعلقات میں بہتری کا سبب ہوتی ہے۔
وہ بہت لاپروا ہے:میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنے بچے کو نقصان کرنے سے کس طرح روکوں۔ وہ بہت لاپروا ہے، آئے دن سکول میں چیزیں گم کرکے آتا ہے ، گھر میں بھی چیزیں توڑ دیتا ہے مثلاً پانی پیا تو گلاس ہاتھ سے پھسل کر ٹوٹ گیا، سائیکل چلاتے ہوئے گر کر کپڑے میلے کر لئے۔ میں اپنی جاب سے شام 4 بجے آتی ہوں۔ سکول سے آنے کے بعد وہ دادی کے گھر ہوتا ہے، گھر کیا وہ تو گھر سے باہر ہی گھومتا ملتا ہے۔ ان کا کہنا بھی نہیں مانتا۔ اس کی عمر 8 سال ہے، سزا کا بھی اثر نہیں لیتا۔(صدف‘ لاہور)
مشورہ: کسی ایسی بات پر بچے کو کیا سزا دی جائے جسے وہ جرم نہیں سمجھ رہا یا درحقیقت وہ جرم ہے ہی نہیں تو سزا کے بے اثر ہونے کے ساتھ بچے کی شخصیت پر بھی منفی اثرات ہوں گے۔ پہلا اثر یہ ہوگا کہ اس کے دل میں سزا دینے کے حوالے سے خوف بیٹھ جائے گا اور دوسرا یہ کہ تجرباتی نشوونما نہیں ہو پائے گی۔ وہ کنفیوژ ہو جائے گا کہ آخر اس کو کیوں سزا دی جارہی ہے اور بھی بہت سے نقصانات ہیں جن کا ذکر کرنے کے لئے یہاں جگہ کم ہے۔ بہرحال آپ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ بچے سے چیزیں غلطی سے ٹوٹتی ہیں ، وہ توڑتا نہیں۔ اسی طرح سکول بھیجتے ہوئے اس کی توجہ دلا کر کاپیاں اور کتابیں گن کردیں۔ نرمی سے سمجھائیں کہ وہ انہیں گن کر واپس لائے۔ بچہ کم عمر ہے، اس کو آپ کی مثبت توجہ اور وقت چاہیے تب ہی روئیے میں نمایاں بہتری آئے گی۔
وہ مجھے اچھی نہیں لگتی:میری ماں کے ہوتے ہوئے والد نے دوسری شادی کر لی ۔ میری عمر 22 سال ہے ‘ انہوں نے اس لڑکی سے میرا نکاح کر دیا جو مجھے اچھی لگتی تھی لیکن اسے زندگی بھر اپنانے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا ۔ حیران ہوں کہ لڑکی اور اس کے گھر والے خوش ہیں مگر میری امی روتی ہیں ‘ وہ کہتی ہیں مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا ۔ اب مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا ۔ والد دوسری بیوی کو طلاق دے دیں گے تو گھر میں خوشی آ جائے گی ‘ خواہ مجھے بھی نکاح ختم کرنا پڑے ۔ میں اپنی ماں کی خوشی چاہتا ہوں ۔(شاہنواز‘ پشاور)
مشورہ:آپ نہ چاہتے تو نکاح نہیں ہو سکتا تھا ۔ نکاح کے بعد یہ سوچنا کہ طلاق دے دی جائے یقینا ً بُرا فیصلہ ہے۔ کبھی نہ کبھی آپ کی شادی ہونی تھی ‘ بہتر ہے اسی لڑکی کو ہمیشہ ساتھ رکھنے کے بارے میں سوچیں جو اچھی ہے ۔ والد پر آپ کا اختیار نہیں اور نہ وہ آپ کی بات ماننے پر مجبور ہیں ۔ گھر کی خوشی کے لئے والدہ کو اپنی شادی کے بعد بھی فرماں بردار رہنے کا احساس دلائیں تا کہ وہ عدم تحفظ اور دکھ کا احساس نہ کریں ۔ بہت زیادہ رونا ڈیپریشن کی علامت ہے ۔
احساس عدم تحفظ:اس مرتبہ میں گھر گیا تو بچوں کے لئے مختلف طرح کے کھلونے لے لئے ۔ روبوٹ ‘ ریموٹ کی گاڑیاں وغیرہ ۔ بڑے بچے تو خوش ہوئے لیکن میرا اپنا بچہ جس کی عمر 18 ماہ تھی ‘ ان کھلونوں سے بہت خوفزدہ ہوا ۔ اب وہ 3 سال کا ہے ‘ میری بیوی بتاتی ہے کہ لوگوں سے ڈرتا ہے ‘ اس لئے وہ اس کو کہیں لے کر نہیں جاتی ‘ اور اس عورت سے بھی ڈرنے لگا جو اس کو سنبھالتی ہے ۔ (انعم ‘ دبئی) ۔
2 سال سے 5 سال کی عمرتک بچے مختلف چیزوں سے خوف محسوس کر سکتے ہیں ‘ ان میں ان بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جن کو ڈرایا جاتا ہے ۔ ماں سے دور رہنے والا بچہ بھی خود کو دوسروں کے پاس محفوظ نہیں سمجھتا ۔ ماں کو چاہیے کہ وہ بچے کو خود وقت دیں ‘ جہاں تک کھلونوں سے ڈرنے کی بات ہے تو یہ کیفیت عمر کے ساتھ دور ہو جاتی ہے اور بچے جو پہلے اپنے ہی کھلونوں سے پریشان ہوتے تھے ‘ کچھ بڑے ہونے کے بعد ان سے کھیلنے لگتے ہیں ۔
کتاب کا تحفہ
مجھے اپنے دوستوں ‘ گھر والوں اور رشتے داروں کو تحفے دینے کا بہت شوق ہے ۔ ایک روز تو میں نے اسکول کی فیس سے دوستوں کی دعوت کر ڈالی تھی ۔ اب اس سوچ کر بھی شرمندگی ہوتی ہے لیکن ملاقات پر کچھ نہ کچھ دینے کی خواہش اب بھی شدید ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا ‘ ایسا کیا تحفہ دیا کروں جو لوگ یاد رکھیں اور اچھے دوست بن جائیں ۔ (حارث اسلم ‘ سرگودھا) ۔
شوق اچھا ۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر یہ شوق غیر ضروری حد تک بڑھ جائے تو اپنے ہی لئے تکلیف دہ ہو گا ۔ بہتر ہے کہ تحفہ کسی خاص موقع پر دیا جائے ‘ ایسا تحفہ جس پر بڑی رقم خرچ نہ کی گئی ہو مگر فائدہ بہت زیادہ ہو مثلا ً اچھی کتاب ۔ ان لوگوں سے دوستی رکھیں جو مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ خود اپنی اور دوسروں کی اصلاح اور تربیت میںدلچسپی لیتے ہوں ۔ اپنے اندر بھی حصول علم کا رجحان پیدا کریں ۔ اس طرح آپ کے علمی دوست بن جائیں گے ۔
ضمیر کی قوت
میرے بڑے بھائی نے صرف 22 سال کی عمر میں اپنی پسند پر شادی کر لی ۔ گھر والوں نے بھی ان کا ساتھ دیتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ رکھا ۔ وہ شادی کے دو ماہ بعد مل سے باہر چلے گئے ‘ وہاں دوسری شادی کر لی ۔ واپس آئے تو پہلی بیوی کو طلاق دے دی ۔ ہم سب لوگوں کو بے حد دکھ ہوا ۔ جلد ہی وہ چلے بھی گئے ۔ اب وہ اپنی دوسری بیوی سے بھی خوش نہیں ۔ امی سے کہتے ہیں ‘ یہاں کوئی اچھی لڑکی دیکھیں ‘ غیر ملکی لڑکی کے ساتھ رہنا ممکن نہیں ۔ ادھر امی ان کے لئے لڑکی دیکھنے لگی ہیں ۔ بھائی بچپن سے ضدی طبیعت کے ہیں ۔ ایک روز میں نے بھابی سے بات کی ۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ شخص نفسیاتی مریض ہے اور مانتا نہیں ‘ میں اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ۔ میں مجبور بھی نہیں ۔ دونوں نے مل کر کاروبار کیا تھا اور جب میری رقم مل جائے گی ‘ میں اسے چھوڑنے میں دیر نہ کروں گی ۔ یہ حالات جان کر میں اور زیادہ پریشان ہو گیا ۔ (ایم ۔ فرید ‘ جگہ نامعلوم) ۔
-
کم عمری سے ہی مزاج میں تیزی ‘ ضدی پن اور سن بلوغ کو پہنچنے کے بعد شادی کی ناکامی ‘ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار یہ ظاہر کرتی ہے کہ واقعی آپ کے بھائی کے ساتھ نفسیاتی صحت کی خرابی کا مسئلہ ہے ۔ جب ضمیر کی قوت کمزور ہو جائے تو انسان خواہشات کی رو میں بہہ جاتا ہے ‘ پھر انہیں دوسروں کے احساسات و جذبات کی پروا نہیں ہوتی ۔ شادیوں میں ناکامی سے بھی اس کیفیت کا اظہار ہو رہا ہے ۔ والدہ کو مشورہ دیں کہ اس بار بھائی آئیں تو شادی کرنے کے بجائے انہیں ماہر نفسیات سے ملوانا ضروری ہے ورنہ بہت ممکن ہے کہ تیسری شادی بھی نا کام ہو جائے ۔
ایک خواہش
میری بڑی بیٹی جس کی عمر 40 سال ہے ‘ نفسیاتی مریضہ ہے ۔ گھر میں چھوٹی بہنوں کا آنا اور رہنا پسند نہیں کرتی تھی ۔ گذشتہ چند ماہ سے اس کا رویہ کافی بہتر ہے ۔ وہ رف ایک خواہش کا اظہار کر رہی ہے کہ اس کی شادی کر دی جائے ۔ سوچتا ہوں اچھا ہے اپنے گھر کی ہو جائے گی ۔ اس کی خواہش تو نارمل ہے ۔ (شہاب الدین ‘ لاہور) ۔
بیٹی جس ڈاکٹر یاسائیکائٹرسٹ کے زیر علاج ہیں ‘ ان سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہو گی کہ مرض پر کس حد تک قابو ہےا ور شادی کے بعد کی ذمہ داریاں نبھانے کی امید کی جا سکتی ہے ۔ مخصوص خواہش کے ہونے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رویہ ٹھیک رکھنے کا بھی اختیار ہو گیا ہے ۔ اگر نفسیاتی مرض میں آرام بھی ہو جائے تب بھی جس سے شادی کی جائے ‘ اس کے علم میں لانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ شدید ذہنی مرض ٹھیک ہو جانے کے بعد بھی حملہ آور ہو سکتا ہے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں